Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”ہیلو ہاؤ آر یو؟“ اس نے شناسا انداز پر مڑ کر دیکھا تھا قریب ہی چند قدموں کے فاصلے پر شیری کھڑا مسکرا رہا تھا۔
”جی ،میں ٹھیک ہوں۔“ وہ پرس درست کرتی ہوئی عام انداز میں بولی۔
”آپ مسکراتی کیوں نہیں ہیں؟ مسکراتی رہا کریں یقین مانیے مسکرانے پر ابھی تک کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔“ وہ اتنے بھولپن سے گویا ہوا تھا کہ پری بے ساختہ مسکرانے لگی تھی۔
”ڈیٹس گڈ“ یہ ہوئی نہ بات آپ خود کو کتنا بہتر فیل کر رہی ہوں گی۔ آپ شاپنگ تنہا کرنے کی عادی ہیں؟“ وہ اس کو ایک مال کے پارکنگ ایریا میں کھڑے دیکھ کر تعجب سے استفسار کرنے لگا۔
”جی نہیں ،میرے ساتھ عائزہ آئی ہے وہ کسی شاپ پر اپنا سامان بھول آئی ہے وہی لینے گئی ہے اس کا ویٹ کر رہی رہوں۔“
”اوہ ،دادی جان کیسی ہیں؟“ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں ،بہت دن ہو گئے ہیں ان سے ملے ہوئے ممی بھی بہت یاد کرتی ہیں دادی کو۔


“ وہ خاصی شرافت و تہذیب کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
”دادی جان کی طبیعت آج کل ٹھیک نہیں ہے۔“
”کیا ہوا ان کو ،کب سے بیمار ہیں وہ؟“
”ڈاکٹر نے چیک اپ کیا ہے کمزوری کے علاوہ کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جو پریشانی کی بات ہو ،دادی جان نے کھانا وغیرہ کم کر دیا ہے۔“ عائزہ شاپر پکڑے وہاں آ گئی تھی۔ شیری کو دیکھ کر اس کے چہرے پر کئی رنگ آئے تھے۔
یہ وہ شخص تھا جس کی وجہ سے اس کی بہن آنسو بہا رہی تھی اور وہ مزے سے ہنستا مسکراتا پھر رہا تھا دل چاہ رہا اس چہرے سے شریف خوبرو دکھائی دینے والے شخص کا گریبان پکڑ کر کہے کہ عادلہ کی زندگی برباد کرکے پھر تمہاری نگاہوں کا محور بدل رہا ہے۔
مگر صرف آہ بھر کر رہ گئی۔ مرد شروع سے حریص ہوتا ہے۔ عورت کی کشش بڑے بڑے پرہیز گاروں کو گناہ گار بنا ڈالتی ہے۔
مرد کا نفس ازل سے کمزور ہے اور اگر کوئی لڑکی پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی از خود ہی اس کی جھولی میں گر جائے تو وہ چوری نہیں کہلاتی ہے۔ اس کو زبردستی نہیں کہتے ہیں کشش اس پھل میں ہوتی ہے جو پہنچ سے دور ہو اور بڑی دقتوں کے بعد حاصل کیا جائے۔
”وہاں کیوں رک گئی ہو عائزہ؟“ پری پر اس کی نگاہ پڑی تو وہ حیرانی سے گویا ہوئی۔
”کیسے ہیں شیری بھائی آپ تو گھر کا راستہ ہی بھول گئے ہیں ہمارے۔
“ دلی جذبات کو اس نے مسکراہٹ کے پردوں میں چھپا جلیا تھا۔
”فائن ،آپ یہاں ابھی تک موجو ہیں۔ میں تو سوچ رہا تھا آپ اسلام آباد فلائی کر چکی ہوں گی؟“ اس کی حیرانی پر عائزہ کچھ کہہ نہ سکی۔
”دادی کی طبیعت کی وجہ سے ممی نے عائزہ کو جانے نہیں دیا تھا مگر جلد فاخر بھائی عائزہ کو لینے آئیں گے۔“ پری نے اعتماد سے کہا اور عائزہ نے سکون کی سانس لی تھی۔
”کافی چلے گی نا؟ موسم بھی کچھ سرد ہے اور آپ تھک بھی گئی ہوں گی۔“
”نہیں بالکل ٹائم نہیں ہے پھر کبھی پئیں گے۔“
”تکلف مت کریں یہاں قریب ہی ہے کافی شاپ۔“
”عائزہ ٹھیک کہہ رہی ہے ہم پہلے ہی بے حد لیٹ ہو گئے ہیں۔“ پری نے ایک ہاتھ سے شاپر دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے جان چھڑانے والے انداز میں کہا اور ہاتھ ہلاتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔
شیری وہیں کھڑا تھا اس نے ہاتھ میں پکڑے گاگلز اسی طرح سیٹ کئے تھے کہ جاتی ہوئی پری کا عکس دور تک دکھائی دیتا رہا تھا۔
”تم نے شیری کو یہ کیوں کہا کہ فاخر مجھے لینے آ رہے ہیں جبکہ تم کو معلوم ہے فاخر نے زیبی آنٹی کی بھی بات نہیں مانی ہے وہ جتنے مان و یقین سے ان کے پاس گئی تھی اتنی ہی بددل اور شکستہ ہو کر واپس آئی ہیں۔“ وہ کار میں محو سفر تھیں جب دھیمے سے عائزہ نے کہا۔
”ہر ایک کو ہم حقیقت نہیں بتا سکتے عائزہ۔“
”ہوں ،کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو مگر لوگ تو پہلے ہی اتنی جلدی شادی ہونے پر متجسس ہو رہے تھے اور اب معلوم ہوا تو رہنا دشوار کر دیں گے۔ ہزار قسم کے سوال الگ ہوں گے۔“
”تم اپنے اچھے فیوچر کیلئے دعا کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ وہ اس کے چہرے پر اترتی یاسیت دیکھ کر سمجھانے لگی۔
”اب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا پری ،کچھ ٹھیک نہیں ہوگا مجھے اپنی خود سری و من مانی کی سزا بھگتنی ہو گی اسی طرح ذلیل و خوار ہو کر۔
“ وہ گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔
”پلیز عائزہ ،شوفر کا خیال کرو وہ کیا سوچے گا۔“ عائزہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگتا ہی گیا تھا۔
###
”اماں جان! طغرل آپ کی بات نہیں ٹالیں گے آپ راضی کریں اس کو۔“ وہ کان سے فون لگائے دوسری طرف سے آنے والی مذنہ کی آواز سن رہی تھیں۔
”مذنہ بہو! مجھے ان باتوں سے دور ہی رکھو تو بہتر ہے۔“
”آپ کو کیسے دور رکھا جا سکتا ہے آپ ہماری سربراہ ہیں اماں جان۔
“ بڑے میٹھے لہجے میں ان کی سربراہی کا اعتراف کیا گیا۔
”اچھا اس سے قبل بیٹا بیٹی کی اپنی مرضی سے شادیاں کرتے وقت میں سربراہ نہیں تھی تمہاری۔“ وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوئیں۔
”اوہو ،اماں آپ تو یہاں کے آزاد ماحول کو جانتی ہیں طلحہ اور فرحانہ نے خود ہی اپنے لئے بَر چن لئے تھے۔ اگر ان کی بات نہیں مانی جاتی تو وہ کورٹ میرج کر لیتے سو ان کی خوشیوں کیلئے شادیاں کرنی پڑیں۔
لیکن اب بھائی جان کی بیٹی وانیہ میری بہو بنے گی وہ بے حد حسین اور طرح دار لڑکی ہے طغرل کے ساتھ سوٹ کرے گی۔“
”ماشاء اللہ! ایک سے ایک حسین و جمیل لڑکیاں صرف تمہارے خاندان میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ چلو تم کہتی ہو تو کوشش کروں گی اس کو وانیہ کے ساتھ شادی کرنے کیلئے شاید منا بھی لوں۔“
”کوشش نہیں آپ کو یہ کام کرنا ہے۔ دراصل وہ پارس کو پسند کرنے لگا ہے۔
اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہاں جب تک رہا مجھے فورس کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں پارس کو بہو بنانے پر راضی ہو جاؤں مگر آپ جاتی ہیں میں اس کو بہو بنانا نہیں چاہتی۔“ مذنہ اور بھی نامعلوم کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ اماں جان کو اچانک ہی اپنا سانس سا گھٹتا ہوا محسوس ہوا درد کی تیز لہر تھی۔ جس نے ان کو ایک دم ہی بے دم سا کر دیا تھا۔ فون ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا تھا لمحوں میں پسینوں میں نہا گئی تھیں۔
”پپ… پپ… پری۔“ ان کی درد بھری آواز پر خیرون نے مڑ کر دیکھا اماں کو بے تربیتی سے بیڈ پر گرے دیکھ کر اس نے ڈسٹرو پیس پھینکا تھا اور بدحواسی سے چیختی ہوئی کمرے سے نکلی تھی۔
”پری بی بی ،پری بی بی۔“ اس کی آواز پر لاؤنج میں داخل ہوتا طغرل تیز تیز قدموں سے ادھر بولا۔
”کیا ہوا ہے؟“
”وہ ،صاحب جی ،اماں جان کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے وہ بے ہوش ہو کر گر گئی ہیں۔
“ خیرون کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی وہ بھاگ کر ان کے کمرے میں پہنچا اور دادی کی بے ہوشی دیکھ کر اس کے وجیہہ چہرے پر سخت پریشنی پھیل گئی۔
”دادی جان ،دادی جان ،آنکھیں کھولیں۔“ وہ وحشت زدہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔ لیکن جواب ندارد۔
”کیا ہوا دادی جان۔“ پری بھی بدحواسی سے وہاں آئی تھی۔
”شوفر کو کہو کار نکالے فوراً۔“ اس نے خیرون سے کہا۔
وہ فاسٹ ڈرائیونگ کرتا ہوا ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ پر پہنچ گیا تھا۔ پیچھے پری ان کا سر گود میں رکھے دعائیں پڑھ کر پھونک رہی تھی۔ اس نے دروازہ کھول کر بڑے آرام سے دادی کا بے ہوش وجود بازوؤں میں اٹھایا تھا اسی اثناء میں میل نرس اسٹریچر وہاں لا چکے تھے۔
ڈاکٹرز نے اس کے شک کی تصدیق کر دی تھی دادی کو ہارٹ اٹیک آیا تھا ان کی حالت خطرے سے باہر نہ تھی۔
ان کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
###
باہر گزرتے ہوئے اس نے غفران احمر کو دیکھا تو مارے خوف کے اس کی سانس بند ہونے لگی تھی وہ آنکھیں پھاڑے اس طرح دیکھ رہی تھی ،اعوان جو اس کے پیچھے آ رہا تھا۔
اس نے سرعت سے آگے بڑھ کر ماہ رخ کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اندر لایا تھا وہ کسی بے جان مورتی کی مانند گھسٹتی چلی آئی تھی۔
”ابھی احمر دیکھ لیتا تو میرا سارا پلان خراب ہو جاتا اور تم مجھے تو بڑے مشورے دے رہی تھیں اور خود جا کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔“ وہ جھنجلاہٹ بھرے انداز میں مخاطب ہوا۔
”وہ واپس کیسے آ گیا ،اس کو کل آنا تھا ،اس کو کسی نے ہمارے مطابق بتا تو نہیں دیا؟“ ماہ رخ خوف زدہ تھی۔
”کون بتائے گا باہر اس کو؟“
”میرا دل گھبرا رہا ہے ،کچھ ہونے والا ہے۔
”وہم ہے تمہارا اور کچھ نہیں۔“ اس نے اسے بھرپور انداز میں دلاسہ دیا تھا۔
”وہم نہیں… اس کا اس طرح واپس آنا نیک شگون نہیں ہے۔“ قبل اس کے وہ کچھ اور کہتا باہر سے غفران احمر کی آواز آئی۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو حاجرہ!“ بہت بلند و سخت لہجہ تھا۔
”رئیس میرا دل گھبرا رہا تھا ،میں تازہ ہوا کھانے یہاں آ بیٹھی۔“ حاجرہ کی کانپتی آواز ماہ رخ کی دل کی دھڑکنوں کو مزید بڑھ رہی تھی اس کو ہر طرف اپنی بربادی دکھائی دے رہی تھی۔
”بدبخت۔“ غفران احمر نے ایک زور دار لات مارتے ہوئے چیخ کر کہا۔ “تجھے تاکید کی تھی ہماری رانی کے پاس سے لمحے کو بھی مت ہلنا ،اسے کسی بھی وقت کسی بھی شے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور تو یہاں ہوا کھانے آن بیٹھی ہے تیری یہ جرأت۔“ اس نے لاتوں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کا استعمال بھی شروع کر دیا تھا۔
”معاف کر دو رئیس! مجھ سے بھول ہو گئی۔
“ درد و تکلیف سے چیختے ہوئے حاجرہ منت و سماجت کر رہی تھی۔
”میں مار دوں گا اسے وہ آدمی نہیں درندہ ہے۔“ اعوان نے حاجرہ کو مسلسل پیٹتے ہوئے دیکھ کر غصے سے بپھرتے ہوئے کہا اور ماہ رخ کے منع کرنے کے باوجود باہر نکل گیا۔
###
ایک کے بعد ایک گھنٹہ گزر گیا تھا دوپہر سے رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ دادی کی حالت ہنوز خطرناک تھی انہیں ہوش نہیں آ رہا تھا وہ دونوں آئی سی یو کے باہر صوفے پر بیٹھے تھے۔
پری کی گویا دنیا ہی اجڑ رہی تھی اس کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے ،دعاؤں اور آیتوں کا ورد کرتے ہوئے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ طغرل بھی ساری خفگی و غصہ بھلائے اس کے قریب صوفے پر بیٹھا تھا۔
اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور دل گویا وسوسوں سے بھر گیا وہ پری کی طرح گھٹ گھٹ کر رو تو نہیں سکتا تھا مگر شدت ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں دادی کے ساتھ گزرے وقت کا ہر لمحہ اسے یاد تھا ،ان کی بے قرار نگاہیں آئی سی یو کے دروازے سے ٹکرا کر واپس آرہی تھیں۔
”دادی ٹھیک ہو جائیں گی؟ دادی کو کچھ نہیں ہوگا نہ طغرل بھائی۔“ اچانک اس نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر وحشت زدہ لہجے میں کہا۔
”ہاں… ہاں انشاء اللہ! دادی ہمارے ساتھ جائیں گی ،مسکراتی ہوئیں۔“
”پھر ڈاکٹر کیوں بار بار دعا کرنے کو کیوں کہہ رہے ہیں؟ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ دادی کو کچھ ہوا تو میں مر جاؤں گی۔“ وہ اس کے بازو سے چہرہ ٹکا کر رونے لگی۔

   1
0 Comments